182۔ زبان کی اہمیت
لِسَانُ الْعَاقِلِ وَرَآءَ قَلْبِهٖ وَ قَلْبُ الْاَحْمَقِ وَرَآءَ لِسَانِهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۴۰)
عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بے وقوف کا دل اُس کی زبان کے پیچھے ہے۔
عقلمند اُس وقت زبان کھولتا ہے جب دل میں سوچ بچار اور غور و فکر سے نتیجہ اخذ کر لیتا ہے لیکن بے وقوف بے سوچے سمجھے جو منہ میں آتا ہے کہہ گزرتا ہے۔ اس طرح گویا عقلمند کی زبان اس کے دل کے تابع ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے تابع ہے۔ اس فرمان میں بات کرنے سے پہلے غور و فکر کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔ زبان عقل کی ترجمان ہوتی ہے اس لئے کہنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ میری اس بات سے مجھے یا جس کسی کے بارے میں بات کر رہا ہوں اسے کیا فائدہ یا نقصان ہوگا۔ اسی طرح یہ راہنمائی فرمائی کہ جلد بازی میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ یوں انسان زبان کی وجہ سے خسارے اور نقصان سے محفوظ رہے گا ۔آپ کے اس فرمان پر عمل کیا جائے تو انسان کوئی ایسی بات نہیں کرے گا جس سے کسی کا دِل دُکھے اور اِسے معذرت کرنی پڑے۔